الیکشن کمیشن ہو چکا ہے بے عزت مودی کے خلاف ہو چکا ہے الیکشن نریندر مودی الیکشن کو تقریبا ہار چکے ہے اب کوئی بڑی واردات ہی بچا سکتی ہے مودی کو الیکشن میں، ورنہ الیکشن مودی سے دور جاتے ہوئے نظر آرہا ہے ملک میں جاری پارلیمانی الیکشن کا تیسرا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ ہر مرحلہ کے ساتھ تین باتیں بھی بالکل واضح ہو رہی ہیں، نمبر ایک الیکشن مودی جی کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے اور ان کی بوکھلاہٹ بھی صاف جھلک رہی ہے۔ نیز بی جے پی کے دوسرے لیڈروں خاص کر اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی انتخابی مہم اور زیادہ فرقہ وارانہ ہوتی جا رہی ہے۔ نمبر دو اپوزیشن خاص کر کانگریس اور اس کے لیڈر راہل گاندھی کی انتخابی مہم اور زیادہ شدید ہی نہیں بلکہ قاتلانہ جبلت والی ہو گئی ہے۔ جس نے مخالفین کی حوصلے پست کر دئے ہیں اور یہ کم و بیش وہی منظر ہے جو 2014 میں تھا، جب مودی ایسے ہی حملہ آور ہوتے تھے اور کانگریس دفاعی لڑائی لڑ رہی تھی۔ تب کانگریس کا ہر داؤ الٹا پڑ رہا تھا آج وہی کیفیت مودی اور بی جے پی کی ہے۔ سپریم کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس مدن لوکر، دہلی ہائی کورٹ کے سبکدوش چیف جسٹس شاہ اور موقر انگریزی اخبار دی ہندو کے ادارتی مشیر این رام نے ملکی مسائل پر نریندر مودی اور راہل گاندھی کے مابین کھلی بحث کی تجویز پیش کی ہے۔ لکھنؤ کے ایک اجلاس میں راہل گاندھی نے اس بحث پر رضامندی ظاہر کر دی۔ مگر مودی اب تک خاموش ہیں۔ مودی کی اس خاموشی کا پیغام اچھا نہیں گیا۔ عمومی طور سے لوگوں کا یہی خیال ہے اور اب مزید پختہ ہو گیا ہے کہ مودی اسٹیج پر کھڑے ہو کر ٹیلی پرامپٹر کے سہارے چاہے جتنی لفاظی کر لیں ایسی کسی بحث کا سامنا کرنے کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ الیکشن کے دوران یہ عوامی تاثر بی جے پی کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہو رہا ہے۔
اور تیسرا جو سب سے افسوسناک و تشویشناک ہے وہ یہ کہ پہلے سے ہی بدنام اور رسوا ہو چکے الیکشن کمیشن کی ساکھ دو کوڑی کی ہو حکی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی، یوگی آدتیہ ناتھ، امت شاہ کے ساتھ ہی ساتھ اتر پردیش کی انتظامیہ جس طرح مثالی ضابطہ اخلاق، قانون اور جمہوری قدروں کا مذاق اڑا رہی ہے اور الیکشن کمیشن آنکھ کان ناک سب بند کئے بیٹھا ہے، اس سے ان تین روایتی بندروں کے فوٹو نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں جو آنکھ کان منہ سب بند کئے بیٹھے رہتے ہیں۔ کمیشن کھلے عام پوری بے حیائی کے ساتھ مودی کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، جس کا بدترین ثبوت یہ ہے کہ مودی کے خلاف محض چوبیس گھنٹوں میں آئی قریب 18 ہزار شکایتوں پر بحالت مجبوری نوٹس تو جاری کی لیکن ملزم یعنی مودی کو نہیں بلکہ پارٹی کے صدر جے پی نڈا کو، جنہوں نے اس نوٹس کو در خور اعتنا بھی نہیں سمجھا اور جواب کے لئے مزید وقت مانگ لیا یعنی چناؤ ختم اور نوٹس ردی کی ٹوکری میں! ادھر اتر پردیش کی انتظامیہ کھلے عام ننگا ناچ کر رہی ہے ایک ایک حلقہ میں ایک دو نہیں دس بیس چالیس پچاس ہزار لوگوں تک کو ریڈ کارنر نوٹس جاری کر کے ان سے نقص امن کا خطرہ بتا کر انھیں پولنگ بوتھ کے ارد گرد بھی نہ آنے کی آگاہی دے دی گئی ہے۔ یہ کون لوگ ہوں گے بتانے کی ضرورت نہیں، سبھی سمجھ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ مخالف ووٹروں خاص کر مسلمان۔ یادو اور دلتوں کو یا تو گھروں سے پولیس نکلنے ہی نہیں دے رہی ہے یا انہیں بوتھوں سے بھگا دیا جا رہا ہے۔ نقاب پوش مسلم خواتین کے ساتھ کھلے عام بد تمیزی کی جاتی ہے تا کہ یہ لوگ ووٹ نہ دے سکیں۔ دوسرے مرحلہ کی پولنگ کے دوران امروہہ یا سنبھل کے پولیس کپتان کا پیغام وائرل ہو گیا تھا، جس میں انہوں نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ جمعہ کی نماز ختم ہو گئی ہے اب لوگ زیادہ تعداد میں ووٹ دینے نکلیں گے، اس لئے فورس بڑھا دی جائے! یہ سب کچھ کھلے عام پوری دیدہ دلیری اور بے شرمی سے ہو رہا ہے اور الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔الیکشن کمیشن نے پہلے دو مرحلوں میں ہونے والی پولنگ کے اعداد جاری کرنے میں پہلے تو غیر معمولی تاخیر کی، پھر پولنگ میں چھ سات فیصد کا غیر معمولی اضافہ دکھایا۔ اس سے عوام کے ذہنوں میں فطری طور سے شکوک پیدا ہوۓ ہیں۔ صدر کانگرس ملکاارجن کھڑگے نے اس بابت جب کمیشن کو خط لکھا تو کمیشن کی جانب سے ان کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا گیا کہ وہ کمیشن پر سے عوام کا اعتماد متزلزل کر رہے ہیں۔ جواب کا لب و لہجہ بھی ناشائستہ تھا جو کمیشن ضابطہ اخلاق کی کھلی دھجیاں اڑانے پر وزیر اعظم کو نوٹس جاری کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا وہ ملک کی سب سے قدیمی پارٹی کے صدر کے ساتھ غیر شائستہ رویہ اختیار کرتا ہے۔
چدمبرم نے سہی کہا کہ یہ خط کسی آئینی ادارہ کی جانب سے نہیں بلکہ کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے لکھا گیا لگتا ہے! الیکشن کمیشن کے اس جانب دارانہ رویہ اور بے حسی کے خلاف گزشتہ دنوں کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ اور ممتاز وکیل ابھشیک منو سنگھوی کی قیادت میں انڈیا بلاک کا ایک کل جماعتی وفد الیکشن کمشنروں سے ملا اور اپنی شکایات درج کرائیں۔ سماج وادی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ جاوید علی نے بتایا کہ کمیشن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اگلے مرحلوں میں ایسے ریڈ کارنر نوٹسیں جاری نہ کرنے کی ہدایت اتر پردیش انتظامیہ کو دے دی جائیں گی مگر سوال یہ ہے کہ اتر پردیش انتظامیہ وزیر اعلی کی مرضی سے ان کی خوشنودی کے لئے کام کرے گی یا کمیشن کی ہدایت پر جس کے اختیارات چناؤ ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے۔ جب تک سیاسی قیادت آئینی اصولوں اور قدروں کی پاسداری نہیں کرے گی تب تک انتظامیہ سے اس کی امید کرنا فضول ہے اور پھر الیکشن کمیشن ہی کیوں مودی کی مہربانی سے زہر تو پورے کنویں میں پڑ چکا ہے۔ مودی کی زہر آلود بیان بازی کے خلاف جب ممتاز صحافی قربان علی نے دہلی پولیس میں ایف آئی آر درج کرانے کی درخواست دی تو پولیس نے اسے درج نہیں کیا اس کے خلاف جب وہ دہلی ہائی کورٹ گئے تو جس تاریخ کو ان کی درخواست کی سماعت ہونی تھی اس تاریخ کو جج صاحب چھٹی پر چلے گئے۔ جیسے بیانات مودی یوگی امت شاہ وغیرہ دیتے ہیں ان پر تو ضلع الیکٹورل افسر کو خود ایف آئی آر درج کرانی چاہئے اور الیکشن کمیشن کو ان لوگوں کو انتخابی مہم سے باہر کر دینا چاہئے۔ یاد ہوگا کہ آنجہانی بال ٹھاکرے کی ایسی ہی انتخابی تقریر پر انہیں انتخابی جنگ سے ہی باہر کر دیا گیا تھا۔
آئینی اداروں کی یہ خود سپردگی آئین اور جمہوریت کے محافظ ہونے کے بجائے حکومت کا ہی ایک شعبہ یا حصّہ بن جانا جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ پھر تو ایوان میں اکثریت حاصل ہو جانے کے بعد حکمران شتر بے مہار ہو جائے گا جیسا کہ آج ہمارے ملک میں ہو رہا ہے۔ یاد کیجئے ٹرمپ نے شکست کے بعد اقتدار کی منتقلی میں کتنے روڑے اٹکائے تھے، کیا کیا ڈرامہ بازی کی تھی، مگر وہاں کے آئینی ادارے مضبوط ہیں۔ خود امریکی کانگریس کی صدر نینی پیلوسی جن کا تعلق ٹرمپ کی پارٹی سے ہی ہے وہ بھی ٹرمپ کے خلاف ہو گئی تھیں۔ سوچئے اگر یہ حالت ہندوستان میں ہوتی تو کیا اقتدار کی منتقلی ہو پاتی؟ یہ الیکشن راہل گاندھی کی ہندوستان کی آئینی جمہوریت بچانے کے لئے دس سال قبل چھیڑی گئی لڑائی کا آخری قلعہ ہے۔ اگر یہ فتح ہو گیا تو ملک کی آئینی جمہوریت ہی نہیں بلکہ اس کا اتحاد اور سالمیت بھی بچے گی، ورنہ نہ صرف تاناشاہی بلکہ انتشار خانہ جنگی اور کارپوریٹ لوٹ سے اس ملک کو بچایا نہیں جا سکے گا، جس کی قیمت کوئی ایک طبقہ، صاف کہیں تو صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پورا ملک ادا کرے یگا اور صرف لٹیرے عیش کریں گے۔ چند باتیں بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہیں اول یہ الیکشن نریندر مودی کے ہاتھ سے پھسل چکا ہے۔ کوئی معجزہ ہی ہو جائے یا کچھ پلوامہ گودھرا جیسا ہو جائے تو بھلے ہی مودی کی ناؤ پار ہو جائے، ورنہ انکی شکست فاش باالکل صاف دکھائی دے رہی ہے۔ دوسرے ای وی ایم اور الیکشن کمیشن پر عوام کو رتی بھر بھی اعتماد نہیں ہے۔ بد اعتمادی کے یہ بادل صرف الیکشن کمیشن پر ہی نہیں بلکہ تمام آئینی اداروں پر چھائے ہوئے ہیں۔ تیسرے راہل مجاہد جمہوریت اور عوام کی امیدوں کا مرکز بن کر ابھرے ہیں ان سب کا منطقی انجام کیا ہوگا یہ 4 جون کو ہی معلوم ہو سکے گا۔