ایران دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہا ہے…
سب سے پہلے تو دنیا کے مسلمانوں کو بلا تفریق مسلک یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قبلہ اول (بیت المقدس/مسجد اقصیٰ) کسی ایک فرقہ یا مسلک کا نہیں، یہ سنیوں، شیعوں، وہابیوں، بریلویوں اور دیگر جتنے بھی مسلک ہیں ان سب کا ہے۔ اس کو صیہونیوں کے چنگل سے آزاد کرانا دنیا بھر کے مسلمانوں کا فرض اولین ہے، اور جو لوگ اس جہاد میں شامل ہیں اور جانی و مالی نقصان برداشت کر رہے ہیں، وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ سبھی ملکوں کے مسلمان اس جہاد عظیم میں شریک نہیں ہو سکتے، لیکن اسے اخلاقی اور مالی امداد دے سکتے ہیں۔ اگر یہ بھی نہ کریں تو کم سے کم اس جہاد عظیم میں شامل مسلمانوں کو مسلکی خانوں میں تقسیم کر کے اس جہاد کو کمزور اور دنیا بھر میں خود کو ہی شرمندگی کا باعاث نہ بنائیں۔
اسرائیل نے سنی رہنما اسمٰعیل ہانیہ اور شیعہ رہنما حسن نصراللہ کو شہید کر کے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں سبھی مسلمان ایک ہیں، مگر مسلمان خود کو مسلکی تقسیم سے باہر نکالنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس مسلکی تقسیم کے نقصانات سے اکابرین ہمیشہ سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ’اے گرفتار ابو بکر و علی ہوشیار باش‘۔ علامہ خمینی نے کہا تھا کہ ’تم ہاتھ چھوڑ کر اور ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کو لے کر آپس میں لڑ رہے ہو، ادھر دشمن تمہارے ہاتھ کاٹنے کی تیاری کر رہا ہے‘۔ اسمعیل ہانیہ اور حسن نصراللہ کی ایک ہی دشمن کے ہاتھوں شہادت علامہ خمینی کی آگاہی کو سچ ثابت کر رہی ہے۔ لیکن علمائے سوء کا ایک بڑا طبقہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہا ہے۔ اپنے معمولی مفاد کے لیے امت میں تفرقہ ڈالنے کی شرمناک حرکتیں جاری ہیں۔
فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے پیش کیے جانے والے جان و مال کے نذرانہ کو بھی مسلکی چشمے سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان عناصر کا انصاف اللہ ہی کرے گا۔ آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر اس بات کے لیے تھو تھو ہو رہی ہے کہ 56 مسلم ممالک، جن میں سے زیادہ تر کو اللہ نے ہر طرح سے نواز رکھا ہے، اسرائیلی جارحیت اور مظالم و نسل کشی کے سامنے بے دست و پا ہیں۔ ان میں اسرائیل کے جارح ہاتھوں کو روکنے کی طاقت نہیں ہے۔ جب ایران حماس کی مدد کر کے اور سیدھے طور سے نیز اپنی ملیشیاؤں حزب اللہ اور حوثی جنگجوؤں کے ذریعہ بالواسطہ صیہونی جارحیت کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کی ٹانگ کھنچائی کر رہے ہیں۔ منافقت، برادر کشی، بزدلی اور بے حیائی کی اس سے بڑی مثال ملنا مشکل ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 41 ہزار فلسطینی بزرگوں، بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو گزشتہ ایک سال کی جارحیت میں موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ پورے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا ہے۔ کسی افریقی ملک کے ایک امام صاحب نے جمعہ کے اپنے خطبہ میں بڑی پتے کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب 40 ہزار لاشیں بچھ جانے کے بعد بھی امت مسلمہ پر کوئی اثر نہیں ہوا تو میرے چند منٹ کے خطبہ سے کیا ہوگا، صفیں درست کیجئے، نماز شروع کیجیے۔‘‘ ایک عالمی جائزہ کے مطابق اگر آج جنگ بند ہو اور پوری دنیا فراخدلی سے غزہ کی تعمیر نو میں مدد کرے تو غزہ کو اس کی اصلی حالت میں واپس لانے کے لیے کم سے کم 50 سال کا عرصہ درکار ہوگا۔
ایک زمانہ تھا جب سارے عرب ممالک اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے تھے۔ یہاں تک کہ جو دیگر ملکو ں کی تجارتی کمپنیاں اسرائیل سے تجارت کرتی تھیں ان کمپنیوں تک کا سبھی عرب ممالک میں بائیکاٹ ہوتا تھا۔ مصر، اردن اور شام (جن کی سرحدیں اسرائیل سے ملتی تھیں) تو اسرائیل سے براہ راست نبرد آزما ہوتے تھے۔ 1967 کی جنگ میں ہارے تو 1971 میں اس کے ناقبل تسخیر ہونے کا بھرم بھی چکنا چور کر دیا تھا۔ سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد عالمی منظر نامہ کچھ ایسا تبدیل ہوا کہ سبھی ملکوں کو اپنی خارجہ پالیسی ازسر نو ترتیب دینی پڑی۔ اس تبدیلی میں سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ جو ملک عالمی برادری، خاص کر ایشیا اور افریقی ملکوں میں احھوت تھا اس کو عالمی منظوری مل گئی۔ امریکہ سے قربت حاصل کرنے کے خواہش مند ممالک اسرائل کو بھی اپنی ناک کا بال بنانے لگے۔
لیکن اسرائیلی جارحیت سے یہ تو ہوا ہی ہے کہ ساری دنیا میں فلسطینیوں کے حق میں آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ کل تک جو یوروپی ممالک جرمنی، انگلینڈ، فرانس، کناڈا وغیرہ اسرائیل کی حمایت میں کھڑے تھے، آج وہ اپنی خارجہ پالیسی پر از سر نو غور کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ ایسا اس لیے کیونکہ عوام میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے اسرائیل سے ناراضگی بام عروج پر ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک امریکی گھر میں سبھی لوگ بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ اسکرین پر جیسے ہی اسرائیلی وزیر اعظم کی تصویر آئی، ایک خاتون نے اٹھ کر اس پر جوتے برسانا شروع کر دیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد لڑکا اٹھا، ہاکی اسٹک لیا اور ٹی وی کا اسکرین توڑ دیا۔ اسرائیل عالمی برادری میں کتنا الگ تھلگ پڑ گیا ہے اس کا اندازہ متحدہ اقوام میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خطاب کے دوران دکھائی دیا جب ہندستان اور امریکہ سمیت چند ممالک کو چھوڑ کر سبھی ممالک کے سربراہ اور نمائندگان ہال چھوڑ کر باہر چلے گئے تھے۔
کوئی یوروپی ملک ایسا نہیں جہاں اسرائیل کے خلاف مظاہرے نہ ہو رہے ہوں۔ عرب ممالک کے سربراہان بھلے ہی مصلحت کوشی کا شکار ہوں لیکن ان کے عوام کھل کر فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ اس سے قبل جب ایران نے اسرائیل پر راکٹ سے حملہ کیا تھا تو اردن نے اسے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ناراضگی ظاہر کی تھی، لیکن تازہ حملہ میں ایران کے بیلسٹک اور سپرسونک میزائل عراق و اردن کی فضائی حدود سے ہو کر اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب سمیت اس کے کئی شہروں پر گرے اور اردن کے شاہ کی ہمت نہیں پڑی کی وہ ان راکٹوں کو روک سکیں، یا اس حملے کے خلاف کچھ کہہ سکیں۔ یہ وہاں کی عوام کے دباؤ کا ہی نتیجہ ہے۔
مصلحت کوش عرب حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ فلسطینیوں کی مزاحمت اور ان کی قربانیوں سے ہی ان کا وجود بچا ہوا ہے۔ جس دن فلسطینیوں کی مزاحمت شکست کھا کر ختم ہو گئی، پھر اسرائیل کے سامنے میدان صاف ہوگا اور وہ صیہونی اکابرین کے خوابوں کا عظیم تر اسرائیل بنا کر ہی دم لے گا، جس کا نقشہ فلسطین کی پارلیمنٹ میں ٹنگا ہوا ہے۔ اس عظیم تر اسرائیل میں پورا اردن، لبنان، مصر کا صحرا، شام کی گولان پہاڑیاں، سعودی عرب کا نصف حصّہ اور خلیجی عرب ممالک کا بھی کچھ حصہ شامل ہے۔ امریکہ کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کہہ بھی رہے ہیں کہ اسرائیل بہت چھوٹا ملک ہے، اس کی سرحدوں کی توسیع ہونی چاہئے۔ اس لیے عرب حکمرانوں کو چاہیے کہ خود اپنے مفاد میں فلسطین کی آزادی کو ترجیح دیں۔ مصلحت کوشی، برادر کشی، بے حسی چھوڑیں اور سعودی عرب کے مرحوم شاہ فہد کے منصوبہ کے تحت دو مملکتی فارمولہ کو عملی شکل دینے کی کوشش کریں۔ اسرائیل کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اس کے عوام مسلسل موت کے سائے میں جی رہے ہیں۔ ہمہ وقت سائرن کی آواز سے کمین گاہوں میں چھپ جانا ان کی زندگی کا معمول بن گیا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل خالی ہو رہا ہے۔ وہاں سے لوگ ملک چھوڑ چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ اسرائیل اپنے اندرونی معاملات پر دبیز آہنی دیوار کھڑی کیے رہتا ہے، مگر حقیقت سامنے آ ہی جاتی ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اس کا اصل تحفظ امن و استحکام میں ہی ہے، فوجی مہم جوئی میں نہیں۔