مودی کابینہ میں ایک بھی مسلم چہرے کو نہیں ملی جگہ، اقلیتی برادریوں سے 5 ارکان کی شمولیت
نریندر مودی نے مسلسل تیسری بار وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لے کر تاریخ رقم کی ہے۔ پی ایم مودی بی جے پی کے پہلے وزیر اعظم اور ملک کے دوسرے وزیر اعظم ہیں، جنہوں نے لگاتار اقتدار کی ہیٹ ٹرک حاصل کی ہے۔ اتوار کو نریندر مودی کے ساتھ 71 وزراء نے بطور وزیر حلف لیا۔ مودی حکومت کی کابینہ میں ایک بھی مسلم چہرے کو جگہ نہیں ملی۔ آزادی کے بعد یہ پہلی مرکزی حکومت ہے جس میں اپنی کابینہ کی تشکیل میں کسی مسلمان کو نمائندگی نہیں دی گئی۔
اس طرح نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی کا رجحان تین سے شروع ہو کر اب صفر پر آ کر رہ گیا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ میں آخری مسلم وزیر مختار عباس نقوی تھے۔ 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی اور پہلی مدت میں نجمہ ہپت اللہ، ایم جے اکبر اور مختار عباس نقوی کی شکل میں تین مسلم وزراء کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔ نجمہ ہپت اللہ مرکز میں کابینہ کی وزیر بنیں، جب کہ ایم جے اکبر اور نقوی وزیر مملکت تھے۔ 2019 میں مختار عباس نقوی کو دوبارہ کابینہ میں جگہ ملی، لیکن 2022 میں راجیہ سبھا کی مدت پوری ہونے کے بعد نقوی نے وزیر کا عہدہ چھوڑ دیا۔
اس کے بعد سے کسی بھی مسلمان کو مرکزی حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس طرح مودی کے دور میں شروع ہونے والا تین مسلم وزراء کا رجحان اب صفر تک پہنچ گیا ہے۔جنتا پارٹی اور بی جے پی کے ابتدائی دور سے جن سنگھ کے ذریعے پارٹی میں مسلم قیادت ہوتی تھی۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں بی جے پی کے سینئر مسلم لیڈروں میں سکندر بخت، عارف بیگ، مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین شامل تھے۔ سکندر بخت اور عارف بیگ بی جے پی کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ شاہنواز حسین اور مختار عباس نقوی جیسے لیڈر بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا انتخابات جیت چکے ہیں۔ شاہنواز تین بار لوک سبھا الیکشن جیت چکے ہیں۔
بی جے پی کے ایک مسلم لیڈر کے لیے لوک سبھا الیکشن جیتنا بہت مشکل کام تھا۔بی جے پی پر کبھی سکندر بخت، عارف بیگ، مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین جیسے مسلم لیڈروں کا غلبہ تھا۔ عارف بیگ کو چھوڑ کر تینوں لیڈر اٹل بہار واجپائی کی قیادت والی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں۔ 2014 میں نریندر مودی وزیر اعظم بنے، نجمہ ہپت اللہ کابینہ کے وزیر اور مختار عباس نقوی وزیر مملکت بنے۔ اس کے بعد کابینہ کی توسیع میں ایم جے اکبر کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔ اس طرح مودی حکومت کے پہلے دور حکومت میں تین مسلمان تھے، لیکن اسی دور حکومت میں می ٹو مہم کا نشانہ بننے والے اکبر کو کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا، جب کہ ہپت اللہ کے گورنر بننے کے بعد نقوی بطور واحد مسلمان وزیر کابینہ کے رکن تھے۔2019 میں جب نریندر مودی کی قیادت میں دوسری بار حکومت بنی تو مختار عباس نقوی کو ایک مسلم چہرے کے طور پر مرکزی کابینہ میں جگہ ملی۔
جولائی 2022 میں، مختار عباس نقوی کی راجیہ سبھا میں بطور وزیر اقلیتی بہبود کی مدت ختم ہو گئی۔ پارٹی نے انہیں راجیہ سبھا نہیں بھیجا جس کی وجہ سے انہیں وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا اور اس کے ساتھ ہی مودی کابینہ میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہوگئی۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مرکزی کابینہ میں کوئی مسلمان وزیر نہیں کو شامل نہیں کیاگیاہے جب مودی حکومت تیسری بار ملک میں برسراقتدار آئی تو توقع کی جارہی تھی کہ کسی مسلمان کو وزیر بنایا جاسکتا ہے لیکن اتوار کو کابینہ کی حلف برادری تقریب میں کسی مسلمان کو جگہ نہیں ملی۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، لیکن حکومت ہند میں ان کا حصہ صفر ہے۔ تاہم مودی حکومت میں اقلیتی برادریوں سے 5 وزیر بنائے گئے ہیں جن میں کرن رجیجو اور ہردیپ پوری کو کابینہ وزیر بنایا گیا ہے۔ رونیت سنگھ بٹو، جارج کورین اور رام داس اٹھاولے وزیر مملکت ہیں۔
رجیجو اور کورین کا تعلق عیسائی برادری سے ہے جبکہ ہردیپ پوری اور بٹو کا تعلق سکھ برادری سے ہے۔ رام داس اٹھاولے کا تعلق بدھ مذہب سے ہے۔ اس طرح کابینہ میں کوئی مسلمان نہیں ہے۔تاہم پچھلی مودی حکومت کے مقابلے اس بار اقلیتوں کی نمائندگی میں معمولی بہتری آئی ہے۔ 2019 میں، چار اقلیتی چہرے تھے، کرن رجیجو، ہردیپ پوری، مختار عباس نقوی اور ہرسمرت بادل۔ نقوی نے 2022 میں استعفیٰ دے دیا تھا اور ہرسمرت کی پارٹی شرومنی اکالی دل نے این ڈی اے سے تعلقات توڑ لیے تھے۔ اس بار مودی حکومت میں اقلیتی برادریوں سے پانچ وزیر بنائے گئے ہیں، جن میں سکھ، عیسائی اور بدھ مذہب کو نمائندگی دی گئی ہے، لیکن مسلمانوں کو جگہ نہیں ملی۔
بی جے پی نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں مختلف سیٹوں پر سات مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا، لیکن کوئی بھی مسلم لیڈر اپنی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس کے بعد 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے چھ مسلمانوں کو امیدوار کے طور پر کھڑا کیا تھا، لیکن وہ بھی جیتنے میں ناکام رہے۔ اس بار 2024 کے انتخابات میں بی جے پی نے کیرالہ کی ملاپورم سیٹ سے عبدالسلام کو ٹکٹ دیا تھا، لیکن وہ اس سیٹ سے ہار گئے۔ اس طرح مسلم کمیونٹی بی جے پی سے دوری بنا رہی ہے، وہیں بی جے پی بھی ان سے دوری اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور مودی حکومت میں مسلم چہرے کا ہونا محض ایک رسمی بات ہے لیکن 14 فیصد آبادی کی نمائندگی کا نہ ہونا یقیناً تشویشناک ہے۔ سیاسی پنڈت یہ بھی مان رہے ہیں کہ اب ملک میں مسلم سیاست بالکل غیر متعلق ہوتی جارہی ہے، نہ صرف بی جے پی بلکہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کو ٹکٹ دینے اور سیاست میں آگے لانے سے گریز کررہی ہیں۔
الیکشن لڑنے کے مواقع محدود ہونے کی وجہ سے موجودہ لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی بھی کم ہوگئی۔نہ صرف این ڈی اے بلکہ حزب اختلاف کا انڈیا اتحاد کی جانب سے بھی زیادہ مسلم امیدواروں کو انتخابی ٹکٹ نہیں دیا گیاہے۔جس کی وجہ سے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں اس بار صرف 23 مسلم امیدوار ہی جیتے ہیں جبکہ گزشتہ انتخابات میں یہ تعداد 27 تھی۔ کانگریس نے 19، ایس پی نے 4، آر جے ڈی نے 2، ٹی ایم سی نے 6 اور بی ایس پی نے 22 مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے۔ اس کے علاوہ این ڈی اے نے چار مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا جن میں ایک بی جے پی اور ایک جے ڈی یو کا تھا۔ این ڈی اے کے اتحادیوں میں سے کوئی بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔
اس وقت لوک سبھا میں یوپی سے 5، مغربی بنگال سے 6، جموں و کشمیر سے 3 اور بہار اور کیرالہ سے دو دو مسلم ایم پی ہیں۔ لکشدیپ،آسام،تامل ناڈو،تلنگانہ اور لداخ سے ایک ایک مسلم امیدوار جیت کر پارلیمنٹ پہنچ گئے ہیں ۔ این ڈی اے کے کسی اتحادی کا کوئی بھی مسلمان جیت کر پارلیمنٹ نہیں پہنچا۔جے ڈی یو، ٹی ڈی پی اور ایل جے پی سے کوئی بھی مسلمان لوک سبھا یا راجیہ سبھا رکن کے طور پر نہیں ہے۔ غلام علی کھٹانہ یقینی طور پر ایک نامزد راجیہ سبھا ایم پی ہیں، جو جموں و کشمیر سے آتے ہیں اور بی جے پی کے مضبوط لیڈر ہیں۔ اگر بی جے پی چاہتی تو انہیں مرکز میں مسلم چہرے کے طور پر شامل کرسکتی تھی، لیکن انہیں بھی موقع نہیں ملا۔ آزادی کے بعد یہ پہلی کابینہ ہے جس میں کوئی مسلمان وزیر شامل نہیں ہے۔