جنگ آزادی کا روشن ستارہ: رفیع احمد قدوائی
رفیع احمد قدوائی کی پیدائش موضع مسولی ضلع بارہ بنکی کے ایک زمیندار خاندان میں 18/فروری 1894ء کو ہوئی۔ ان کے والد کا نام امتیاز علی قدوائی اور والدہ کا نام راشد النساء تھا۔یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمانوں نے ہر عہد میں مادر ہند کی سیاسی، معاشرتی، تہذیبی وتمدنی اور ثقافتی زندگی کو نہ صرف سینچا بلکہ جب بھی وطن عزیز کے اوپر خطرے کے بادل منڈرائے تو اپنی قیمتی جان ومال کو نچھاور کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
برطانوی سامراجیت کے خلاف دوصدی تک چلنے والی طویل تحریک آزادی میں وطن عزیز کے دوسرے ابنائے وطن کے مقابلے پیش پیش رہے۔ ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں ان کا لہو بولتا ہو۔ بہرکیف جہد وجہد آزادی میں جن فرزندان ہند نے حصہ لیا اس میں رفیع احمد قدوائی جیسی حب الوطن شخصیت بھی شامل تھی۔رفیع احمد قدوائی کی پیدائش موضع مسولی ضلع بارہ بنکی کے ایک زمیندار خاندان میں 18/فروری 1894ء کو ہوئی۔
ان کے والد کا نام امتیاز علی قدوائی اور والدہ کا نام راشد النساء تھا۔ ان کے چچا ولایت علی قدوائی پیشہ سے ایک معروف وکیل ہونے کے علاوہ تحریک آزادی کے سپاہی اور کانگریس کے فعال رکن بھی تھے۔ جن کا اثر بھتیجے رفیع احمد پر بھی پڑا۔انہوں نے مروجہ دستور کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1913 ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول بارہ بنکی سے میٹرک کیا۔ بعد ازاں 1916ء میں ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ کا رخ کیا۔ علاوہ بریں اسی سال لکھنؤ میں ہونے والے کانگریس پارٹی اور مسلم لیگ پارٹی کے تاریخی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ ایم۔ اے۔ او کالج سے 1918ء میں بی اے مکمل کرنے کے بعد ایل۔ ا یل۔ بی۔ میں داخلہ لیا مگر سیاسی سرگرمیاں ان کی تعلیمی راہ میں کانٹے بن گئیں۔
کیونکہ وہ کالج میں تحریک آزادی اور انگریزی ذی اختیار کے ظلم وستم کے خلاف اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے تھے۔ جس کی خبر پرنسپل کے کانوں تک پہنچی تو ان کا کالج سے اخراج کرنے کے لیے غور و خوض ہونے لگا لیکن قبل ازوقت انہوں نے خود ہی کالج کو الوداع کہہ دیا۔علی گڑھ چھوڑنے کے بعد تحریک آزادی کو اپنا نصب العین بنا لیا۔ چچا کے زیر سایا 1920ء میں تحریک عدم تعاون اور خلافت میں شامل ہو کر باضابطہ طور پر اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ ضلع میں جگہ جگہ تحریک عدم تعاون کے سلسلے میں شعلہ بیان تقاریر کیں۔ جن کی پاداش میں انہیں برطانوی حکام نے محروس کرکے لکھنؤ جیل بھیج دیا۔ جیل میں ان کی ملاقات پنڈت موتی لعل نہرو اور پنڈت جواہر لعل نہرو سے ہوئی جو وہاں قید وبند کی زندگی گزار رہے تھے۔
جیل سے چھوٹنے کے بعد 1922ء میں الٰہ آباد چلے گئے اور موتی لعل نہرو کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔ 1926ء میں برطانوی ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور اپنی سیاسی بصیرت کی بدولت 1926ء تا1929ء کانگریس قانون ساز اسمبلی کے چیف وہپ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ رائے بریلی ضلع کے کسانوں کو جاری معاشی بدحالی سے بچانے کے لیے بغیر کرایہ کی مہم کا اہتمام کیا۔ بہ سبب 1930ء میں حراست میں لیے گئے اور چھ ماہ قید فرنگ میں گزارے۔ 1935ء میں یوپی کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1937ء تا 1939ء اترپردیش میں وزیر مالیات کا قلم دان سنبھالا اور نمایاں خدمات انجا م دیں۔ 1940 ء ستیہ گرہ تحریک کی بنا پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچے۔ بھارت چھوڑو تحریک میں شریک ہونے پر نظر بند کردیا گیا۔ 1942ء تا1943ء میں اترپردیش میں وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ 1945ء میں انہیں ایک بار پھر جیل کے گوشے کو آباد کرنا پڑا۔ رفیع کو آزادی کے بعد پھوٹ پڑے فسادات میں چھوٹے بھائی شفیع احمد قدوائی کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ آزادی کے بعد رفیع احمد نے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی کابینہ میں ہندوستان کے پہلے وزیر مواصلات کا حلف لیا۔
بعد ازاں پرشوتم داس ٹنڈن سے اختلافات کے بموجب وزارت سے مستعفی ہوگئے۔ لیکن دوبارا 1952 ء کے پہلے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پنڈت نہرو نے انہیں خوراک اور زراعت کا قلمدان سونپا۔ بطور وزیر انہوں نے ایسی نمایاں اور قابل تقلید مثالیں قائم کیں جو آج بھی عوامی زندگی سے منسلک ہر فرد کے لیے نمونہ ہیں۔24/اکتوبر1954ء کو رام لیلا گروانڈ میں دہلی بلدیہ کے ایک انتخابی جلسے کو مخاطب کرتے ہوئے دل کا دورہ پڑا اور رب حقیقی سے جاملے۔
لیکن قابل ذکر امر ہے کہ ایک زمیندار خانوا دے کا فرد اورکابینی وزیر موت کے وقت مقروض، پیبند کی شیروانی، خاندان کے لیے دہلی میں کرائے کی رہائش گاہ اور آبائی وطن میں ایک بوسیدہ مکان چھوڑ کر گیے۔مولانا ابوالکلام آزادنے آزادی کے عظیم المرتبت مجاہد رفیع احمد قدوائی کی وفات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ: ”رفیع احمد کا نام ان لوگوں کے ساتھ سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔ جنہوں نے جدوجہد آزادی کے دوران ملک وقوم کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا تھا اور عظیم قربانیوں کی یاد گار چھوڑی۔ ملک کی آزادی کے بعد اس کے استحکام کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔“