کب تک آنکھ بند رہے گی مسلم دنیا کی جن لوگوں کو ہم کہتے ہیں کہ یہ معاشرہ صرف اپنے خواہشات کے پیچھے لگا ہوا ہے آج اس معاشرے کے لوگ ہمارے مسلمان فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے لیے آواز اٹھائے ہوئے ہیں اور ہماری مسلم دنیا بس تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں، جب کہ احتجاج کرنے والے لوگوں کو کڑی کارروائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے پر وہ لوگ فلسطینیوں کے لئے لڑنے کو اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔
آپ کی یقین دہانی کے لیے کچھ واقعات آپ کی جانکاری میں لانے کی کوشش کرتے ہیں *فرانس کے ایم پی سباسٹیان جب فلسطینیوں کے سپورٹ میں ہو رہے ایک مظاہرے میں “مائی بلڈ از پلسطنیان” پر اپنا سپورٹ دیکھتے ہوئے ڈانس کرنے لگے تو انھیں فرانس کی پارلیمنٹ سے پندرہ دنوں کے لئے برخاست کر دیا گیا۔ *کئی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بچے سڑک پر اتر کر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں جس میں فرانس اور جرمنی کے لوگ خاصہ قابل ذکر ہیں کیونکہ وہاں کی حکومت شروع سے ہی اسرائیل کے ساتھ رہی ہے۔ *میکسیکو میں لوگوں نے مظاہرے کے دوران میکسیکو سٹی میں موجود اسرائیلی ایمبیسی کو آگ لگا دی۔ *جاپان میں رہنے والی کیکیو ناکامورا جن کی عمر ننانوے سال ہے وہ بار بار جنگ روکنے کے پیغام دے رہی۔
غور طلب ہے کہ ناکامورا خود جنگ کے حالات سے گزرنے والوں میں سے ہے جب وہ اکیس سال کی تھی تب امریکہ نے ناگاساکی پر بم مارا تھا جس میں لاکھوں لوگوں کی موت ہوئی تھی *اٹلی میں ایک ریلوے سٹیشن کو جام کر کے مظاہرہ کیا گیا اور مانگ کی گی کہ اسرائیل اپنے ظلم و ستم بند کرئے۔ یہ تمام ہی لوگوں جو لگاتار مظاہرے کررہے ہیں ہر قوم و جنس کے ہیں اور ان کی بس ایک مانگ ہیں کہ فلسطین کو آزاد کیا جائے فلسطینیوں کو ان کی حق کی زمین دی جائے اور جنگ بندی کی جائے۔ نا انھیں ان لڑائیوں سے کوئی فائدہ ملے گا نا یہ ان سب سے مشہور ہونے کی کوئی کوشش کر رہے ہیں،مطلب ہے تو بس انسانیت کو انسانیت سے۔